قومی آواز ۔ نامہ نگا ر نیو یارک : ہندوستان اور باہر کے ممالک میں دہشت گردانہ حملوں نے یہ تاثر قائم کردیا ہے جیسے ’جہاد‘ کو قرآنی تعلیم میں مرکزیت حاصل ہے۔ پہلی بات تو یہ جس کا کہ ہم باربار اعادہ کرتے رہے ہیں، قرآن میں جہاد سے مراد جنگ نہیں، اس لیے کہ جنگ کے لیے تو قرآن میں قِتال اور حرب جیسے دوسرے الفاظ ہیں۔ ’جہاد‘ کا لفظ قرآن میں اپنے بنیادی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی سخت کوشش کرنا اور سماج کی بہتری کے لیے سخت کوشش کرنا، نیکی پھیلانا، جسے ’معروف‘ کہا گیا ہے اور برائی کو روکنا جسے ’منکَر‘ کہا گیا ہے۔ اسکالر کے قلم کی روشنائی کا مرتبہ شہید کے خون سے بلند ہے۔ مذید جاننے کے لیے پڑھتے رہیے قومی آواز
لیکن اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ جہاد کے معنی جنگ ہیں جیساکہ بہت سے نادان مسلمان اور خاص طور پر وہ لوگ جو ’جہاد‘ کو اپنے سیاسی اجنڈے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو بھی قرآنی تعلیمات میں جہاد کو مرکزیت حاصل نہیں۔ جہاد کا لفظ قرآن میں اکتالیس بار استعمال ہوا ہے جب کہ کسی ایک بھی آیت میں یہ جنگ کے معنی میں استعمال نہیں ہوا۔ قرآن میں اقدار کی نمائندگی کرنے والے اور کئی کلیدی الفاظ ہیں۔ قرآن میں چار اہم بنیادی اقدار کا ذکر کیا گیا ہے یعنی عدل، احسان، رحمت اورحکمت۔ قرآن میں ان الفاظ کا ذکر اللہ کے ناموں کی حیثیت سے بھی کیا گیا ہے یعنی اللہ عادل ہے، اللہ محسن ہے، اللہ رحیم ہے، اللہ حکیم ہے۔ اس اعتبار سے قرآن ان اقدار کی دستاویز ہے اور ایک مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ تمام چیزوں پر ان اقدار کو فوقیت دیتے ہوئے ان پر عمل پیرا ہو۔ اور جو شخص بھی ان اقدار کو برتنے میں ناکام ہے وہ سچا مسلمان ہونے کا دعوا نہیں کرسکتا۔ حتیٰ کہ اسلامی اصولِ قانون کی رو سے جہاد لازم نہیں ہے جب کہ یہ چہار اقدار ایک مسلم کردار کی شناخت ہیں اور اس لیے بہت اہم ہیں۔ قرآن میں رحمت کو کسی قدر مرکزیت حاصل ہے اور اللہ کے دو نام رحمان اور رحیم سب سے زیادہ اہم ناموں میں سے ہیں۔ ایک مسلمان ’مرد یا عورت‘ اللہ کے ان دونوں ناموں رحمان اور رحیم کا ورد کرتے ہوئے اپنا کوئی کام شروع کرتا ہے۔ لہٰذا غور کرنے کی بات یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات میں رحم کو سب سے زیادہ مرکزیت حاصل ہے چناں چہ رحم و کرم کے الفاظ اپنی مختلف شکلوں میں قرآن میں تین سو پینتیس (335) بار آئے ہیں جب کہ ان کے مقابلے میں ’جہاد‘ کا ذکر قرآن میں صرف اکتالیس (41) بار ملتا ہے۔
لفظ ’احسان‘ یعنی دوسروں کے ساتھ نیکی قرآن میں ایک سو چورانوے (194) بار آیا ہے۔ یہ تعداد بھی لفظ ’جہاد‘ کے اکتالیس (41) بار سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی طرح لفظ ’حکمت‘ اور اس کے مشتقات کا تذکرہ بھی قرآن میں ایک سو ایک (101) بار ہوا ہے۔ قرآن ’حکمت‘ پر بھی بے پناہ زور دیتا ہے اس لیے کہ ایک اعتبار سے ’حکمت‘ کو ح±جّت پر فوقیت حاصل ہے۔ حجّت کو بھی اگرچہ اہمیت حاصل ہے لیکن بسااوقات نوعِ بشر کے ذریعے اس کا غلط استعمال بھی کیا جاسکتا ہے جب کہ ’حکمت‘ حجّت اور اقدار دونوں کا احاطہ کرتی ہے۔ قرآن نے مسلمانوں کو باربار ’حکمت‘ کے استعمال کی تاکید کی ہے۔ قرآن مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اللہ کا واسطہ بھی ’حکمت‘ کے ساتھ دیں نہ کہ دھمکیوں اور طاقت سے۔ ہم کسی کو اللہ کے راستے پر آنے کی دعوت دھمکیوں اور زور زبردستی سے نہیں بلکہ حکمت اور شیریں گفتاری کے ساتھ ہی دے سکتے ہیں۔
قرآن میں اس بات پر بھی بہت زور دیا گیا ہے کہ ہم تمام سماجی اور سیاسی امور میں عدل کا دامن ہاتھ سے نہ دیں۔ قرآن میں انصاف کے لیے تین لفظ استعمال کیے گئے ہیں یعنی عدل، قسط (داد) اور ’حکمت‘ اور قرآن میں یہ تینوں الفاظ مجموعی طور پر دوسو چوالیس (244) بار استعمال ہوئے ہیں۔ لہٰذا اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ تمام لوگوں کے ساتھ انصاف انتہائی ضروری ہے جس کا صاف طور پر یہ مطلب ہے کہ کسی بھی بے گناہ شخص کو کسی حالت میں سزا نہیں دی جائے گی۔
قرآن میں تینتیس (33) بار اللہ کو غفورالرحیم کہا گیا ہے یعنی معاف کردینے والا، رحم فرمانے والا، بدلہ لینے والا نہیں۔ بدلہ لینے کی خواہش انسانی کمزوری ہے کردار کی طاقت نہیں۔ لہٰذا ایک دین دار مسلمان میں خدا کی طرح معاف کردینے کا مادّہ ہوتا ہے اس طرح خدا اپنے ان بندوں کو معاف کردیتا ہے جو اپنی خطا پر نادم ہوتے ہیں۔ دہشت گردانہ حملوں کی شکل میں ’جہاد‘ کرنے والے دراصل بدلہ لینے پر تلے ہوتے ہیں جب کہ ایک اچھا مسلمان اسی طرح معاف کردینے کو تیار رہتا ہے جیسے اللہ معاف کردیتا ہے۔ یہ درست ہے کہ اللہ ظالموں کو سزا دیتا ہے لیکن کسی ایسے فرد یا افراد کے گروہ کو جسے کسی فرقے یا ریاست کی نمائندگی حاصل نہ ہو، سزا دینے کا کوئی حق نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اسلامی اصولِ قانون یعنی شریعت کی رو سے ’جہاد‘ کے اعلان کا حق یا تو صرف ریاست کو ہے یا ان لوگوں کو جنھیں ریاست کی طرف سے اس کا استحقاق حاصل ہو، کسی اور کو نہیں۔ اس کے برعکس دہشت گردانہ حملے منصوبہ بند طریقے سے ایسے افراد کی جانب سے کیے جاتے ہیں جنھیں کسی ریاست یا ریاستی ادارے کی نمائندگی حاصل نہیں ہوتی۔ لہٰذا ان کے حملوں کو اسلامی شریعت کی رو سے جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسے معصوم لوگوں کے قتل کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ ’جہاد‘ کے اسلامی قوانین کی رو سے بھی کسی بھی ناآماد جنگ پر حملہ نہیں کیا جاسکتا اور عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر تو اور بھی نہیں اور ایسی کسی بھی شہری املاک کو برباد نہیں کیا جاسکتا تاآنکہ وہ فوجی مقاصد یا جنگ کے مقصد کے لیے استعمال نہ کی جارہی ہو۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جنگ کے اسلامی قوانین جنگ کے جدید قوانین یا جنیوا کنونشن سے کسی بھی طرح مختلف نہیں ہیں۔ دہشت گردانہ حملے اسلامی قوانین کے سراسر منافی ہیں اور ان حملوں کو کسی بھی طرح ’جہاد‘ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ میڈیا ان دہشت گردوں کو جہادیوں کا نام دیتا ہے۔ یہ بھی لفظ ’جہاد‘ کا انتہائی غلط استعمال ہے اس لیے کہ عربی زبان میں ’جہادی‘ جیسی کوئی اصطلاح یا لفظ قطعی نہیں ہے۔ دراصل ایک لفظ ’مجاہد‘ ہے اور مجاہد کا لفظ بطورِ تحسین ایسے فرد کے لیے استعمال ہوتا ہے جس نے اپنی زندگی سماجی برائیوں کے خلاف جنگ کرنے کے لیے وقف کررکھی ہو۔ بسااوقات ’مجاہد‘ لفظ کا استعمال ایسے بہادر سورما کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو نہ صرف نڈر ہوتا ہے بلکہ جو صرف حق کے لیے جنگ کرتا ہے اور صرف محاذِ جنگ پر ہی لڑتا ہے وہ مارا اور بھاگ لیے (hit and run) قسم کا سپاہی نہیں ہوتا۔میں یہاں اس امر پر بھی کچھ روشنی ڈالنا چاہوں گا کہ اسلامی ادب میں جہاد کی کیاتشریح کی گئی ہے اور اسے کس طرح سمجھا گیا ہے۔ اگر مذکورہ قرآنی اقدار کی کوئی اہمیت ہے جو بلاشبہ ہے تو اصل ’جہاد‘ تو تن دہی کے ساتھ اِن اقدار کی نشوونما اور فروغ ہے اور صوفیوں اور ولیوں نے اصل جہاد اسی کو سمجھا ہے۔ بالآخر اسلام تو پیغمبرِ اسلام کے ذریعے دنیا میں ان تمام سماجی برائیوں کے خلاف لڑنے ہی کے لیے آیا تھا جو تمام عرب سماج میں بالعموم اور مکہ میں بالخصوص پھیلی ہوئی تھیں۔ چوں کہ قرآنی تعلیمات میں بنیادی اہمیت انھی (صالح) اقدار کی ہے اس لیے ایک سچا مسلمان مرد یا عورت وہی ہے جو خود کو ا±ن تمام برائیوں کے خلاف جنگ کرنے کے لیے وقف کردے جو برائیاں ان اقدار کی نفی ہیں۔ حضور کی تمام زندگی انھی اقدار کو برتنے اور ان کو فروغ دینے میں گزری۔ اسی لیے آپکو بجاطور پر قرآن میں رحمت للعالمین کہا گیا ہے یعنی تمام عالموں کے لیے رحمت، کیوں کہ بدی کے مکمل خاتمے پر ہی دنیا میں رحمت کے دوردورے کا دار و مدار ہے۔
پیغمبر اسلام کے دورِ حیات میں اسلامی تاریخ کو اس کے دو اہم ادوار میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ حضرت محمد کی رسالت کے پہلے تیرہ سالوں کا اس کا مکّی دور اور دوسرا ان کی ہجرت کے بعد کا دس سالہ مدنی دور۔۔۔ مکّی دور میں پیغمبر اسلام اور ان کے پیرو ایک دبی کچلی ہوئی اقلیت تھے لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنے پیرو کاروں کو کسی بھی طرح کے تشدد کی تلقین نہیں کی، اس کے برعکس قرآن نے پیغمبر? اور ان کے ماننے والوں کو متواتر اس امر کی صلاح دی کہ وہ تمام سختیوں کو صبر کے ساتھ جھیلیں ا ور مایوسی کا شکار نہ ہوں۔
پیغمبرنے انتہائی صبر کے ساتھ تمام سختیاں جھیلیں یہاں تک کہ وہ بے حرمتی اور ذلتوں کا بھی شکار ہوئے لیکن وہ اپنے مشن کو آگے بڑھانے میں لگے رہے۔ ان کے پیروکاروں کو انتہائی سخت کوشیوں میں مبتلا کیا گیا، پیغمبرنے انھیں صبر سے کام لینے اور سختیاں جھیلنے کی ہدایت کی۔ اس لیے حضور نے مسلمانوں کی رہ نمائی کرتے ہوئے انھیں بتایا کہ ایسے نامساعد حالات میں ان کا رویّہ کیا ہونا چاہیے اور ان تمام سخت کوشیوں کے باوجود وہ کس طرح امن بحال رکھیں۔ لیکن جب حالات ناقابلِ برداشت ہوگئے تو انھوں نے اپنے بعض پیرووں کو ای تھوپیا ہجرت کرجانے کو کہا اور اس کے بعد وہ خود بھی اپنے کچھ پیرووں کے ساتھ مدینہ ہجرت کرگئے۔اسلام کا مکّی ماڈل ان مسلمانوں کے لیے بہت کارآمد ہوسکتا ہے جن کو دنیا میں اسی قسم کے حالات کا سامنا ہے۔ جیساکہ قرآن میں حکمت یعنی دانش پر انتہائی زور ہے اس لیے انسانوں کو اپنے رویے میں حکمت سے کام لیتے ہوئے اپنی بقا کے لیے ایک موزوں لائح عمل وضع کرنا چاہیے نا کہ یہ کہ وہ تشدد کی منجدھار میں چھلانگ لگا کر اپنے لیے خطرات مول لے لیں۔ قرآن مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے … ’اور مت کرو تم اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی بربادی کا سامان اور بھلائی کرو دوسروں کے ساتھ بیشک اللہ نیکوکاروں سے محبت کرتا ہے’
آج بھی اس طرح کے حالات میں قرآن کی یہ ہدایت اہم ہے کہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی بربادی کا سامان مت کرو۔ دیکھیے نیویارک کے ٹریڈ ٹاور پر 9/11کے حملے کا کیا نتیجہ نکلا۔ کیا القاعدہ نے تمام اسلامی دنیا پر اور خصوصاً افغانستان اور عراق پر ایک عظیم تباہی کو دعوت نہیں دے دی۔ کیا انھوں نے خود اپنے ہی ہاتھوں سے خود کو جہنم کے عذاب میں نہیں جھونک دیا۔ اس حملے کا کسی کو کیا فائدہ پہنچا۔ کیا اس وحشیانہ اور ظالمانہ حملے کے پیچھے کوئی عقل و دانش کارفرما تھی۔
قرآن نے باربار مسلمانوں کو عقل سے کام لینے کی تاکید کی ہے۔ کیا نیویارک کے ٹریڈ ٹاور پر کیا گیا حملہ کسی عقل مندی کا ثبوت تھا؟ زندگی کے ہر شعبے میں قرآن کی تقلید کے بغیر کیا کوئی مسلمان ہونے کا دعویٰ کرسکتا ہے؟ اس طرح کے بے سوچے سمجھے حملے مسلمانوں اور اسلام کے لیے مہلک ہی ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس کے برخلاف قرآن مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ غارت گری کے مرتکب ہونے کے بجائے دوسروں کے ساتھ نیکی کریں۔قرآن واضح طور پر مسلمانوں کو یہ ہدایت کرتا ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ نیکی کرکے ان کے دل جیتیں تاکہ ان کے دلوں سے (تمھاری طرف سے) برائی دور ہوجائے۔ صلح ح±دیبیہ کے امن معاہدے اور فتحِ مکہ کے بعد حضور? کا (مفتوحین کے ساتھ) سلوک ایک عظیم اور فراخ دل لیڈر کے مثالی کردار کی روشن دلیل ہے۔ قرآن نے اسی معنی میں رسول? کے کردار کی تعبیر ا±سو? حَسنہ کی اصطلاح میں کی یعنی تمام بنی نوعِ انسان کے لیے ایک رول ماڈل۔
فتح کے بعد ح±دیبیہ اور مکّہ میں رسول? نے اپنے دشمنوں پر فرمان نازل کرنے یا ان سے انتقام لینے کے بجائے ان کے ساتھ بے پناہ فراخ دلی کا مظاہرہ کیا اور ان کے دل جیت لیے۔ ح±دیبیہ کے محاذ پر رسول? کے پاس اتنی طاقت تھی کہ وہ کفارِ مکّہ کے ساتھ اپنی شرائط پر معاملہ کرسکتے تھے لیکن اس کے بجائے انھوں نے خود ان کی بعض ایسی شرائط مان لیں جو ان کے کسرِ شان تھیں۔ بالآخر مسلمانوں کو اس معاہدے کا فائدہ ہوا۔ لیکن اس طرح کے معاہدے کے لیے پیغمبر اسلام جیسی حکمت کی ضرورت تھی۔ ایک ایسا معاہدہ جو بظاہر ان کے کسرِ شان تھا لیکن جو بعد میں ان کے شایانِ شان ثابت ہوا۔
اسی طرح فتحِ مکہ کے بعد پیغمبر اسلام نے اپنے ان بدترین دشمنوں کو بھی معاف کردیا جنھوں نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی تھی اور ان کے ماننے والوں پر انتہائی غیر انسانی طریقے پر ظلم و ستم ڈھائے تھے۔ اس طرح انھوں نے اپنے بدترین دشمنوں پر فتح پائی اور ان سب نے اسلام قبول کرلیا۔ اگر عربوں کی روایتی فطرت کے مطابق انھوں نے بدلہ لینے کی ٹھانی ہوتی تو ایک بار اور خون کی ندیاں بہتیں اور اتنے سارے حامیانِ اسلام نہ پیدا ہوئے ہوتے۔ گویا اخلاقی فتح کا درجہ بدلہ لینے سے کہیں بلند ہے۔ بدلے سے صرف ہماری انا کو طمانیت حاصل ہوتی ہے اور دشمن کی انا مجروح ہوتی ہے اور اس طرح پرخاش کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
دہشت گرد جو کچھ کررہے ہیں وہ دراصل بدلے ہی کی کارروائی ہے اور وہ بھی ایک کمزور مورچے پر۔ چناں چہ ہر حملہ خود ان کے لیے اور دوسروں کے لیے بھی بربادی کے سوا اور کچھ نہیں لاتا۔ اللہ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو صرف اپنی انا کی تسکین کے لیے بدلہ لیتے ہیں۔ امّت کے معاملات کو دانش مندی کے ساتھ سلجھانا مسلمانوں کے لیے بحیثیت مجموعی زیادہ سودمند ہوگا۔ تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ظالم طاقتوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے جائیں۔ لیکن انصاف کی لڑائی کس طرح لڑی جائے یہ مجموعی فراست کے ذریعے ہی طے کیا جائے تاکہ اسلام اور مسلمانوں کو کم سے کم خطرہ لاحق ہو۔
ایک سوال قرآن کی تفسیر کے طریق کار کا بھی ہے۔ قرآن حضور پر تیس برس کی مدت میں نازل ہوا اور اس کی بیشتر آیات کسی مخصوص صورتِ حال کے تناظر میں اتریں لہٰذا قرآن کی کسی بھی مخصوص سورت کو اس کے سیاق میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہر متن کا کوئی نہ کوئی سیاق و سباق ہوتا ہے اور یہ سیاق و سباق ہی متن کو سمجھنے میں ہماری رہ نمائی کرتا ہے اور متن کو سمجھنے کے لیے یہ بھی سوچنا ضروری ہے کہ کہیں وہ سیاق و سباق تو نہیں بدل گیا ہے یاوہی حالات اب بھی ہیں۔
قرآن کی بیشتر آیات کو جن میں ’جہاد‘ کا جواز پیش کیاگیا، انھیں قرآن کے نظام اقدار کو نظر انداز کرتے ہوئے، محض ان کے لغوی معنی میں لے لیاگیا ہے۔ قرآن کی کسی بھی آیت کے ذریعے جو بھی احکام نازل ہوا اس کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے قرآن کے نظام اقدار کا لحاظ رکھنے کے ساتھ ساتھ اس سیاق کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو معاملے سے تعلق رکھتا ہو۔ جس وقت قرآن نازل ہورہا تھا تو قرآن کا یہ نزول اللہ کی جانب سے تھا اور یہ قرآن نازل ہورہا تھا رسول اللہ? پر۔ چناں چہ اللہ اور اس کا رسول? دونوں ہی قرآن کے نظامِ اقدار سے پوری طرح باخبر تھے لہٰذا وہ جانتے تھے کہ کب جنگ قطعی طور پر ضروری ہے۔لیکن پیغمبر اسلام کے علاوہ جب کبھی بھی دوسرے انسان قرآنی احکام کی پیروی کرتے ہیں تو اس کی صورت بالکل مختلف ہوتی ہے۔ عام مسلمان نہ تو غلطی سے پاک ہوتے اور نہ ہی وہ اسلامی اقدار میں پوری طرح شرابور ہوتے ہیں اس لیے کہ پیغمبر کے مصداق اسو حَسنہ کے حامل کوئی رول ماڈل نہیں ہوتا اور جب کبھی بھی کوئی شخص ا±مّہ کی صلاح کے بغیر کسی بھی معاملے پر ان احکام کا اطلاق کرتا ہے تو وہ سراسر ناقابلِ قبول ہوتا ہے اور دہشت گرد یہی کام کررہے ہیں۔
یہ بالکل ایک جانی بوجھی حقیقت ہے کہ چاہے وہ اسامہ بن لادن کی القاعدہ ہو یا کوئی دوسری دہشت گرد تنظیم، وہ نہ تو کسی حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں اور نہ کسی بڑی مسلم تنظیم کی۔ وہ بعض ایسے مشتعل نوجوانوں کو تحریک دلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جن میں نہ سمجھ ہوتی ہے اور نہ عقل، اور وہ صرف اسلام کے نام پہ دلائے گئے جوش سے مغلوب ہوکر دہشت گردانہ حملے کرتے ہیں اور بہت سے بے گناہ انسانوں کی جانیں لے لیتے ہیں۔ یہ حملے تمام قرآنی احکام کی خلاف ورزی ہیں۔
اس کے علاوہ ساتویں عیسوی کے عرب کے حالات کا موازنہ عصری دنیا کے حالات سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس زمانے میں تشدد کا جواب تشدد ہی تھا۔ عرب قبیلوں کی زندگی میں ’قصاص‘ یعنی جان کا بدلہ جان کی پرانی روایت چلی آرہی تھی اور قرآن نے معاملات کے سیاق میں قصاص کی اجازت سختی سے اس شرط پر دی تھی کہ انصاف کی رو سے اس پر برابری کی سطح پر عمل درآمد ہوگا لیکن ساتھ ہی یہ بھی صلاح دی گئی تھی کہ اگر تم معاف کردو تو یہ بہتر ہوگا۔
اس زمانے میں دوسرے کوئی ادارے موجود نہیں تھے اور قرآن نے صرف دفاعی جنگ کی اجازت دی تھی اور دشمن تک کے خلاف تشدد پر پابندی تھی۔ اور جیساکہ ح±دیبیہ کے امن معاہدے سے ظاہر ہے ’جہاں کہیں بھی ممکن ہو جنگ سے گریز کیا جائے خواہ دشمن ہی کی شرائط پر کیوں نہ ہو‘ اور مکّے کی مثال سے یہ واضح ہے کہ ’دشمن کا دل جیتنے کے لیے قصاص کے بجائے اسے معاف کردینا بہتر ہے۔‘ یہ دونوں ماڈل پیغمبرِ اسلام? کی سنّت کا جزو ہیں اور مسلمانوں کو پیغمبر? کی سنّت پر عمل کرنا چاہیے۔اور آج کی دنیا تو ساتویں صدی عیسوی کے عرب سے سراسر مختلف ہے اور ہم کو آج جنگ کے قوانین کے بجائے قرآنی اخلاقیات کی پیروی کرنی چاہیے۔ آج بیچ بچاو¿، صلح صفائی اور تنازعے ختم کرانے کے لیے دنیا میں بہت سے ادارے موجود ہیں۔ تمام مسلم ممالک اقوامِ متحدہ کے رکن ہیں اور کسی بھی بین الاقوامی تنازعے کو اقوامِ متحدہ کی تنظیم سے رجوع کیے بنا کوئی اقدام نہیں کیا جاسکتا۔ انتہا پسند تنظیمیں کہہ سکتی ہیں کہ ’بجا سہی لیکن یو این او (UNO) پر امریکہ اور دوسرے مغربی ملکوں کا غلبہ ہے اس لیے وہاں سے ہمیں انصاف نہیں مل سکتا‘۔ یہ بات بھی بالکل درست ہے لیکن پھر اس حقیقت کا بھی برابر پردہ فاش کیا جانا چاہیے تاکہ دنیا کو یہ پتا چل سکے کہ کس طرح یو این او امریکہ کے مفادات کے لیے کام کرتی ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ امریکہ نے عراق کے خلاف تشدد کا رویہ اپنایا جب کہ یو این او نے امریکہ کو عراق کے خلاف جنگی کارروائی کی ممانعت کی تھی۔ اس سے امریکہ کا چہرہ کھل کر سامنے آگیا اور بڑے پیمانے پر آج دنیا یہ جانتی ہے کہ یو این او امریکہ جیسی طاقتوں کے سامنے کتنی بے بس ہے۔
اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر آپ فی الحقیقت مسئلے کا پ±رامن حل چاہتے ہیں تو پھر تشدد کی کارروائی سے نہ صرف آپ کے مقصد کو نقصان پہنچے گا بلکہ دنیا کی رائے بھی آپ کے خلاف ہوجائے گی۔ آج کی دنیا میں کسی مقصد کی سب سے بڑی طاقت رائے عامہ کا آپ کے حق میں ہونا ہے۔ اس لیے رائے عامہ کو جیتنے کی کوشش کی جانی چاہیے، پ±رتشدد کارروائی کے مقابلے عدم تشدد کے ذریعے رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنا زیادہ ممکن ہے۔ دہشت گردی کے ساتھ بے قصور لوگوں کے قتل کا اقدام انتہائی طاقتور دشمن کے خلاف موثر نہیں ثابت ہوسکتا۔ اور اس سے رائے عامہ بھی آپ کے خلاف ہوجاتی ہے۔
آج رائے عامہ کو ہموار کرنے میں میڈیا بڑا طاقت ور کردار ادا کر رہا ہے اور عدمِ تشدد کا لائح عمل یقیناً میڈیا کے لوگوں پر اثر انداز ہوگا۔ بدقسمتی سے آج کا نوجوان جمہوری طریق کار کا متحمل نہیں رہا ہے چناں چہ قرآنی روایات کی پیروی کے وہم میں مبتلا ہوتے ہوئے وہ ’جہاد‘ کا نام نہاد راستہ اپنا رہا ہے اور اپنے بارے میں دنیا کی رائے کو خراب کررہا ہے اور یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ اس کے اس منفی رویّے کے نتائج دوسرے مسلمانوں اور مسلم ممالک کے حق میں کیسے ثابت ہوں گے۔تشدد کا یہ بے سوچا سمجھا راستہ جو پاکستان کے القاعدہ اور دوسرے دہشت پسند گروہوں نے اختیار کیا ہے اسلام کو ایک دہشت پسند مذہب کی صورت میں ہمارے سامنے پیش کرتا ہے جیسے کہ اسلام ’جہاد‘ ہی کا مذہب ہو جب کہ اسلام کا نظام اقدار انسانی زندگی اور وقار کے ساتھ دردمندی اور احترام کی مثال پیش کرتا ہے۔ آج صورت یہ ہے کہ بجا طور پر بدھ مت کو دردمندی اور عیسائیت کو محبت اور حق کے مساوی قرار دیا جاتا ہے لیکن اسلام کو ’جہاد‘ اور ’تشدد‘ کی علامت قرار دے دیا گیا ہے۔ کیا (دہشت گردی میں مبتلا ہونے والے) یہ مسلمان نوجوان اپنے گریبان میں منہ ڈال کر یہ نہیں دیکھ سکتے کہ انھوں نے اسلام کی تصویر کتنی مسخ کرکے رکھ دی ہے۔ بعض مفاد پرست طاقتوں کے ہاتھوں ان نوجوانوں کے دماغ اتنے مختل کردیے گئے ہیں کہ وہ سمجھنے لگے ہیں کہ ’جہاد‘ مسلمانوں کے لیے لازمی ہوگیا ہے اور یہ کہ ’جہاد‘ کے علاوہ اور کوئی دوسرا چار? کار ہی نہیں۔ یہ نوجوان اسلامی نظام اقدار سے یکسر بے بہرہ اور ہتھیاروں کی برتری پر اخلاقی برتری کی فوقیت سے نابلد ہیں۔ ح±دیبیہ اور مکّے کی پرامن فتح کی مثالوں سے یہ حقیقت روشن ہے کہ اخلاقی برتری ہی بالآخر فیصلہ کن ہوتی ہے اخلاقی موقف کی طاقت کے سامنے انتہائی زبردست مخالف بھی ہتھیار ڈال دیتا ہے۔ ہمارے دور میں گاندھی جی نے سچ اور عدم تشدد کی پرتاثیر طاقت کا مظاہرہ کیا۔ برطانیہ جس کے راج میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا اس کو گاندھی جی نے سچ اور عدم تشدد کی طاقت سے نیچا دکھایا۔ بدقسمتی سے بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عدم تشدد ایک بزدلانہ رویّہ ہے جو کمزوری کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ یہ بڑا غلط نظریہ ہے۔ عدم تشدد کا راستہ انتہائی جرت مند اور سچا انسان ہی عمل میں لاتا ہے۔ تشدد کا جنم غصے اور انتقام سے ہوتا ہے نہ کہ سچائی کے موقف سے۔
پیغمبرِاسلام نے ایک بار ’جہاد‘ کی تعبیر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جہاد نام ہے ظالم حکمراں کے روبرو سچ بولنے کا‘۔ ظالم حکمراں کے روبرو سچ بولنے کے لیے بے پناہ جر?ت درکار ہے اور ایک بزدل تو صرف ظالم کے حضور گھٹنوں کے بل کھڑا ہی ہوسکتا ہے۔ سچ جسے قرآن نے ’حق‘ کہا ہے اس کا ماننے والا انتہائی جر?ت مندی کے ساتھ اس کی پاس داری کرے گا اور تمام سختیوں کو صبر کے ساتھ جھیلے گا۔ اسلام کے مکّی دور میں مسلمانوں نے انتہائی صبر اور ثابت قدمی کے ساتھ ناقابلِ تصور سختیاں جھیلیں، ان کے اندر کبھی بھی کسی تشدد آمیز اقدام کی آگ نہیں بھڑکی۔
مکّہ کے مسلمان انتہائی نامساعد حالات میں سختیاں جھیلنے کی بہترین مثال ہیں۔ آج دنیا میں کتنے ہی مسلم اکثریت والے ممالک ہیں۔ مسلم نوجوانوں کو اپنے اپنے ملکوں کے حکمرانوں پر اس بات کے لیے دباو¿ ڈالنا چاہیے کہ وہ ایک ساتھ مل کر ان ناانصافیوں کے خلاف لڑیں جو ان کے ساتھ امریکہ اور دوسری طاقتوں نے روا رکھی ہوئی ہیں۔ اگر یہ حکمراں امریکہ دوست ہیں اور کوئی اقدام نہیں کرتے تو پھر ان کے خلاف پ±رامن طریقے سے پبلک احتجاج کریں۔ اس سے ان حکمرانوں کا پردہ فاش ہوگا جو امتِ مسلمہ کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کی پروا کرتے ہیں۔ یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس طرح کے احتجاجوں سے کوئی فوری نتائج برآمد نہیں ہوتے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس کا اثر حکمراں طبقے پر کیا ہوگا۔ یہ دلیل جزوی طور پر درست ہے۔ لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردانہ حملے کتنے موثر ہیں؟ کیا وہ مطلوبہ مقاصد کو پورا کرنے میں کامیاب ہیں؟ ایسی کوئی مثال سامنے نہیں۔ اور پھر سوال یہ ہے کہ تشدد کس کے خلاف؟ ابھی تک ایسی کوئی مثال سامنے نہیں آئی کہ امریکہ یا کسی دوسری طاقت نے ایسے تشدد آمیز حملوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہوں۔ اس سے اور بھی بڑا جوابی تشدد جنم لیتا ہے اور اس طرح ایک چکرویو سا بن جاتا ہے۔ عراق میں، افغانستان میں، پاکستان میں اور اب ہندوستان میں سینکڑوں بے گناہ موت کا شکار ہوچکے ہیں لیکن اس کے باوجود تشدد جاری ہے۔یہ لڑائی کسی مقصد کے لیے نہیں بلکہ محض انا کی لڑائی ہوکر رہ جاتی ہے۔ حکمت، جو مقدس قرآن کی سب سے اہم قدر ہے، اس بات کی متقاضی ہے کہ کوئی بھی لائح? عمل اختیار کرنے سے پہلے صورتِ حال کا تفصیل کے ساتھ اور معروضی ڈھنگ سے جائزہ لے لیا جائے۔ جو لوگ دہشت گرد قسم کے تشدد کا طریق? کار اختیار کررہے ہیں ان کا ان مغربی ملکوں کی زبردست طاقتوں یا ملکوں کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں جن کے خلاف وہ لڑ رہے ہیں۔ اور ہتھیاروں کی لڑائی میں وہ عوام کو اپنے ساتھ لے کر نہیں چل سکتے۔ دوسری طرف تشدد پر آمادہ گروہوں کے بے سوچے سمجھے حملے انھی پ±رتشدد اقدامات کی بدولت ان کے اور عوام الناس کے درمیان ایک خلیج پیدا کردیتے ہیں۔ لہٰذا عقل مندی اسی میں ہے کہ رائے عامہ کی حمایت حاصل کرتے ہوئے لڑائی جمہوری طرز پر لڑی جائے۔ اس اعتبار سے اسلام کا مکّی ماڈل کسی بھی دوسرے ماڈل کے مقابلے میں سودمند ہوگا۔ جنگ سے متعلق قرآنی آیات کا نزول مدینہ میں ہوا تھا اس لیے کہ مکّے کے کفاروں (اسلام نہ قبول کرنے والوں) کے حملے ان پر ان دنوں لگاتار جاری رہتے تھے اور مسلمانوں کے پاس سوائے دفاعی تدابیر اختیار کرنے کے اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ اسلامی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ پیغمبرِ اسلام? نے جتنی بھی جنگیں لڑیں وہ تمام کی تمام دفاعی نوعیت کی تھیں۔
اور اگر امریکہ نے عراق اور افغانستان پر حملہ کیا تو ان ملکوں کی فوجوں کے لیے یہ ضروری ہوگیا کہ وہ اپنا دفاع کریں یا شکست کی صورت میں کوئی دوسری تدابیر اختیار کریں۔ یہ صورتِ حال کسی بھی گروپ کو اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ تشدد کا راستہ اختیار کریں۔ اور ان گروپوں کو کسی بھی طرح یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے ہی ملکوں کے معصوم شہریوں کو اپنا نشانہ بنائیں۔
جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے ان دہشت گردانہ حملوں کے ذریعے کسی انتقامی جذبے کے تحت بازاروں میں چلتے پھرتے معصوم ہندوو¿ں اور مسلمانوں پر کوئی فرقہ وارانہ تشدد برپا نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ویسا ہی گناہ ہے جس کی مرتکب فرقہ وارانہ طاقتیں مسلمانوں کے خلاف ہوئی تھیں۔ دانش مندی کا تقاضا ہے کہ صبر و سکون کے ساتھ جمہوری انداز میں رائے عامہ کو ہموار کرتے ہوئے عام ہندوو¿ں کے دل جیتے جائیں کہ وہ پبلک کے سامنے فرقہ وارانہ فاشسٹ طاقتوں کا پردہ فاش کریں۔
امید کی جاتی ہے کہ وہ گمراہ مسلم نوجوان جو اس طرح کی پ±رتشدد کارگزاریوں پر آمادہ ہیں وہ دہشت گردانہ حملوں کے بارے میں اس حقیقت کو باور کریں گے کہ وہ بے اثر ہیں اور اس طرح کے مجرمانہ اور گنہ گارانہ اقدام سے پرہیز کریں گے اور اس کے بجائے اس بات پر توجہ دیں گے کہ اعلا اخلاقی کردار میں اپنی شخصیتوں کو ڈھالیں تاکہ وہ صحیح معنوں میں برتر قرآنی اخلاقیات کی پیروی کرسکیں۔ یاد کیجیے پیغمبر نے کہا تھا