انصاف کا قتل ۔ سپریم کورٹ نے سزائے موت جبکہ ہائی کورٹ نےشاہ زیب قتل کے تمام ملزمان کو ضمانت پر رہا کر دیا

قومی آواز ۔ کراچی ۔
Saturday, December 23, 2017
سندھ ہائی کورٹ نے شاہ زیب خان قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی سمیت چار ملزمان کی سزائے موت کو معطل کردیا ہے اور ماتحت عدالت کو مقدمے کی دوبارہ سماعت کی ہدایت کی ہے۔

نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق سندھ ہائی کورٹ کی ڈویژنل بینچ نے سیشن کورٹ کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ یہ فساد فی الارض کے زمرے میں آتا ہے کہ نہیں۔

کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے شاہ زیب خان قتل کیس میں شاہ رخ جتوئی اور نواب سراج کو سزائے موت جبکہ دو ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

شاہ زیب کیس: ‘انسدادِ دہشتگری کی دفعات خارج نہیں ہو سکتیں’

شاہ زیب قتل: شاہ رخ ریمانڈ پر پولیس تحویل میں

شاہ رخ نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی، منگل کو دو رکنی بینچ کے روبرو وکلا نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔

شاہ رخ جتوئی اور دیگر ملزمان کے وکیل رشید رضوی نے اپنے دلائل میں عدالت کو آگاہ کیا کہ نوجوان شاہ زیب کو قتل کرنے کا سبب ذاتی رنجش تھا جو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے زمرے میں نہیں آتا، قتل کے وقت ملزم کی عمر 17 سے 18 سال تھی اس کے باوجود ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلا کر سزا دی گئی جبکہ یہ مقدمہ جونائیل ایکٹ کے تحت سیشن کورٹ میں چلانا تھا۔

پراسیکیوٹر جنرل سندھ شہدت اعوان کا کہنا تھا کہ مقدمے کا فریادی مقدمے کی پیروی کرنا نہیں چاہتا لیکن اس کے باوجود بھی مقدمے میں شامل دہشت گردی کی دفعات کا فیصلہ ہونا چاہیے۔

عدالت نے ملزمان کی سزا کو کالعدم قرار دے کر مقدمے کی سیشن کورٹ میں سماعت کرنے کا حکم جاری کیا اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات خارج کردیں۔

کراچی میں ڈیفنس میں 2012 میں ایک نوجوان شاہ زیب خان فائرنگ میں ہلاک ہوگئے تھے، ایف آئی آر کے مطابق بڑی بہن کے ولیمے سے واپسی پر فلیٹ کے نیچے شاہ زیب خان کی بہن سے مرتضیٰ لاشاری نے بدتمیزی کی جس کے بعد دونوں فریقین میں تلخ کلامی ہوئی اور فائرنگ کے نتیجے میں شاہ زیب خان مارا گیا۔ مقدمے میں شاہ رخ جتوئی، اس کے دوست نواب سراج تالپور، سجاد تالپور اور ان کے ملازم مرتضیٰ لاشاری کو نامزد کیا گیا تھا۔

ملزمان کی گرفتاری کے عمل میں نہ آنے کے بعد کراچی کے سماجی کارکنان کی جانب سے سوشل میڈیا پر ’جسٹس فار شاہ زیب خان‘کے نام سے مہم چلائی گئی جبکہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی اس کا ازخود نوٹس لیا تھا، جس کی وجہ سے یہ مقدمہ ہائی پروفائل بن گیا۔

افتخار محمد چوہدری کی وراننگ کے بعد مفرور شاہ رخ خان کو دبئی، نواب سراج تالپور کو نوشہرفیروز اور دیگر ملزمان کو سندھ کے دیگر علاقوں سے گرفتار کیا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت میں سماعت کے دوران مقتول شاہ زیب خان کے والد ڈی ایس پی اورنگزیب خان اور والدہ عنبرین اورنگزیب نے عدالت میں ایک حلف نامہ پیش کیا تھا، جس میں انھوں نے ملزمان کو معاف کرنے کی آگاہی دی تھی۔ تاہم مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل ہونے کی وجہ سے ملزمان کو معافی نہیں مل سکی۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی کی دفعات کے خاتمے کے بعد یہ جرم اب قابل معافی بن گیا ہے۔

جبکہ اسی سال دسمبر شروع میں شاہ زیب کے والد نے ایک مقامی روز نامے کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ دیت کے نام پرجتوئی فیملی سے کوئی رقم نہیں لی، بیٹے کے قاتلوں کودباؤ میں آکرمعاف کیاہے، چاہتاہوں انصاف ملے۔شاہ زیب کے والد اورنگزیب نےسب سے پہلے کہاکہ سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے سے بہت دکھ ہوا۔ بیرون ملک جانے کی خبریں بھی غلط ہیں۔واضح رہے کہ بہن کی شادی کے موقع پر قتل ہونیوالے شاہ زیب کے ورثاءنے شاہ رخ جتوئی سمیت سزائے موت پانیوالے چاروں ملزمان کو فی سبیل اللہ معاف کردیا تھا۔ مدعی پارٹی کے ذرائع کے مطابق شاہ زیب کے والدڈی ایس پی اورنگزیب خان ، والدہ امرین اورنگزیب اور بہن ماہاخان نے چاروں ملزمان کو فی سبیل اللہ معاف کردیا اوراِس سلسلے میں اپنا بیان حلفی سندھ ہائیکورٹ میں جمع کرادیاہے جہاں شاہ رخ جتوئی سمیت چاروں ملزمان نے انسداددہشتگردی کی عدالت سے ملنے والی سزائے موت کے خلاف اپیل دائر کررکھی ہے ۔ شاہ زیب کی والدہ امرین نے معافی نامے سے لاعلمی کا اظہا رکرتے ہوئے کہاکہ صلح کیلئے بات چل رہی تھی لیکن اُن کے خاوند بہتر بتاسکتے ہیں ۔ شاہ زیب کے خاندان کے وکیل نے معافی نامے جمع کرائے جانے کی تصدیق کردی ہے ۔بتایاگیاہے کہ مقتول شاہ زیب کے ورثاء نے قصاص و دیت کے تحت فی سبیل اللہ معاف کیا۔یادرہے کہ بہن کی شادی کے موقع پر گذشتہ سال دسمبر کے آخری ہفتے میں ڈیفنس کے علاقے میں شاہ رخ جتوئی اور اُس کے ساتھیوں نے شاہ زیب کی بہن سے چھیڑچھاڑ کی تھی اور روکنے پر ملزمان نے فائرنگ کرکے شاہ زیب کو موت کے گھاٹ اُتاردیاجس کا معاملہ میڈیا میں آنے پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیاتھا اور پھر مقدمے کاسلسلہ شروع ہواتھا۔

ماخوذ : ڈیلی خبر &  بی بی سی