پشاور: زرعی ڈائریکٹوریٹ پر حملے میں 11 افراد شہید،

قومی آواز پشاور ۔
Friday, December 1, 2017
واقعے کی اطلاع ملتے ہی سیکیورٹی فورسز جائے وقوع پر پہنچ گئیں—۔فوٹو/اے ایف پی
پشاور: زرعی ڈائریکٹوریٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں 11 افراد شہید ہوگئے جب کہ فورسز کے آپریشن میں تمام حملہ آوروں کو ہلاک کردیا گیا۔

واقعے میں 5 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 30 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔

ہلاک کیے گئے دہشت گردوں سے بڑی تعداد میں اسلحہ بھی برآمد ہوا، جس میں بارودی مواد کے علاوہ 20 ہینڈ گرنیڈ اور 3 خودکش جیکٹس بھی شامل تھیں، جنہں دہشت گرد پھاڑنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔

پشاور حملہ: ’دہشت گرد افغانستان میں اپنے ساتھیوں سے رابطے میں تھے‘

پولیس ذرائع کے مطابق زرعی یونیورسٹی کے قریب واقع ڈائریکٹوریٹ جنرل زراعت خیبرپختونخوا پر اچانک 3 نقاب پوش مسلح افراد نے حملہ کرکے فائرنگ شروع کردی۔

نمائندہ جیو نیوز کے مطابق جائے وقوع سے شدید فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں جبکہ ایک زوردار دھماکا بھی سنا گیا۔

واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس، ایف سی، فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی بڑی تعداد جائے وقوع پر پہنچ گئی جبکہ یونیورسٹی روڈ اور اطراف کی سڑکوں کو ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا، جسے آپریشن مکمل ہونے کے بعد کھول دیا گیا۔

زرعی ڈائریکٹوریٹ کا مرکزی دروازہ جہاں سے دہشت گرد اندر داخل ہوئے—۔جیو نیوز اسکرین گریب
جائے وقوع کی فضائی نگرانی بھی کی گئی جبکہ آس پاس کے علاقوں میں سرچ آپریشن کیا گیا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران تینوں دہشت گردوں کی ہلاکت کی تصدیق کی۔

‘حملہ آور برقع پہن کر رکشے کے ذریعے آئے’
آپریشن کے بعد آئی جی کے پی صلاح الدین نے حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ صبح تقریباً 8 بجکر 35 منٹ پر حملے کی اطلاع موصول ہوئی، 3 دہشت گرد رکشہ میں برقع پہن کر آئے اور انہوں نے پہلا حملہ چوکیدار پر کیا، جو زخمی ہوا۔

آئی جی نے بتایا کہ اطلاع ملتے ہی پولیس کی گاڑیاں 3 سے 4 منٹ کے اندر پہنچیں، جس کے بعد فوج کے دستے بھی پہنچ گئے، پولیس اور آرمی کی کوآرڈینیشن اتنی اچھی تھی کہ وقوعہ شروع ہوتے ہی سیکیورٹی فورسز ڈائریکٹوریٹ کے اندر گھس چکی تھیں۔

آئی جی کے مطابق آپریشن میں پشاور پولیس، ایلیٹ گروپ، ریپڈ رسپانس گروپ اور پاک فوج کے ریگولر اور اسپیشل دستوں نے حصہ لیا۔

سیکیورٹی فورسز نے بروقت آپریشن کیا—۔فوٹو/اے ایف پی
ان کا کہنا تھا کہ آپریشن کے دوران ایک جانب سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں سے لڑ رہی تھیں، وہیں طلباء کو بھی نکالا جارہا تھا، جنہیں بکتر بند گاڑیوں میں تین چار کھیپوں میں باہر نکالا گیا۔

آئی جی کے پی نے بتایا کہ واقعے میں 6 طلباء، ایک چوکیدار اور چند سویلینز شہید ہوئے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 3 دہشت گردوں کو بھی ہلاک کردیا گیا جبکہ چوتھے شخص کی شناخت کا عمل جارہی ہے۔

آئی جی کا کہنا تھا کہ خطے کی موجودہ صورتحال میں دہشت گرد آسان اہداف کی طرف جاتے ہیں، لہذا اس طرح کے واقعات ایک ممکنہ امر ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘پاکستان میں اس طرح کے واقعات میں غیرملکی ایجنسیاں اور افغانستان کے دہشت گرد ملوث ہیں اور یہ سب منصوبہ بندی کے تحت ہورہا ہے’۔

اس سے قبل ایس ایس پی آپریشنز سجاد خان نے بھی بتایا تھا کہ ‘حملہ آور شٹل کاک برقعے پہن کر رکشے کے ذریعے ڈائریکٹوریٹ آئے تھے’۔

سجاد خان نے بتایا کہ ‘دہشت گردوں نے خودکش جیکٹس بھی پہن رکھی تھیں، حملہ آوروں نے سب سے پہلے چوکیدار کو نشانہ بنایا، تاہم سیکیورٹی فورسز کے بروقت پہنچنے کی وجہ سے نقصان کم سے کم ہوا’۔

اسپتال میں ایمرجنسی نافذ
واقعے کے زخمیوں کو طبی امداد کے لیے خیبر ٹیچنگ اسپتال منتقل کردیا گیا اور اسپتال میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔

خیبر ٹیچنگ اسپتال کے ترجمان کے مطابق واقعے کے 15 زخمیوں کو اسپتال لایا گیا، جن میں طلباء سمیت ایک چوکیدار، ایس ایچ او یونیورسٹی کیمپس فرحت اور ایک صحافی بھی شامل تھا۔

دوسری جانب آرمی کے 2 جوانوں کو طبی امداد کے لیے سی ایم ایچ منتقل کردیا گیا۔

ڈائریکٹوریٹ زراعت کے ایک ملازم کے مطابق عموماً یہاں 3 سے 4 سو کے قریب طلباء ہوتے ہیں تاہم چونکہ یہ سال کا آخر ہے اور 12 ربیع الاول کے موقع پر عام تعطیل کی وجہ سے بھی متعدد لوگ اپنے گھروں کو روانہ ہوچکے تھے، اس لیے امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ حملے کے وقت 100 کے قریب طلباء موجود ہوں گے۔

واقعے کی اطلاع ملتے ہی سیکیورٹی فورسز کی بڑی تعداد جائے وقوع پر پہنچ گئی—۔جیو نیوز اسکرین گریب
زرعی ڈائریکٹوریٹ کے قریب خیبرٹیچنگ اسپتال کا نرسنگ ہاسٹل بھی موجود ہے، جہاں سے لوگوں کو نکال کر محفوظ مقام کی طرف منتقل کردیا گیا۔

جس مقام پر حملہ ہوا، وہاں ایگریکلچر ایکسٹینشن، ایگریکلچر لائیو اسٹاک اور ڈائریکٹوریٹ جنرل زراعت کے دفاتر کے ساتھ ملازمین کے گھر بھی واقع ہیں، جبکہ یہاں ایگریکلچر آف سائنس اور ویٹرنری سائنس کے ڈپلومہ کروائے جاتے ہیں۔

ہم سو رہے تھے کہ اچانک فائرنگ شروع ہوگئی: عینی شاہد
ایک عینی شاہد طالب علم نے نمائندہ جیو نیوز کو بتایا کہ ‘ہم سو رہے تھے کہ اچانک فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہوئیں، جس پر ہم اٹھ گئے اور بھاگنا شروع کردیا، مرکزی دروازے پر زیادہ شدید فائرنگ ہورہی تھی، جس کے نتیجے میں ہمارے 2 ساتھی بھی زخمی ہوئے، جنہیں ہم اپنے ساتھ نکال کر باہر لائے’۔

ایک اور عینی شاہد طالب علم نے بتایا کہ ‘حملہ آور اچانک آئے،جب پہلا فائر ہوا تو ہم بوکھلا گئے اور سمجھے کہ شاید کسی نے پٹاخا پھوڑا ہے، پھر جب زیادہ فائر ہوئے تو ہم نے مرکزی دروزے کی جانب بھاگنا شروع کردیا، ہم تقریباً 15، 16 ساتھی تھے، جن میں سے 2 زخمی ہوئے’۔

حملے کی مذمت
وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے پشاور میں زرعی ڈائریکٹوریٹ پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کرکے بڑے جانی و مالی نقصان سے بچا لیا۔

احسن اقبال نے شہید اور زخمی ہونے والوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس سے قبل گورنر خیبرپختونخوا اقبال ظفر جھگڑا نے زرعی ڈائریکٹوریٹ پر دہشت گردوں کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے واقعے میں زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا تھا۔

اقبال ظفر جھگڑا کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنائیں گے اور ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرکے ہی دم لیں گے۔

دوسری جانب وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی پشاور میں دہشت گرد حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی فورسز نے بر وقت کارروائی کرکے دہشت گردوں کوناکام بنایا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گرد انسانیت کے کھلے دشمن ہیں۔

پشاور میں دہشت گرد حملے
زرعی ڈائریکٹوریٹ پر یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب گذشتہ ماہ 24 نومبر کو پشاور کے علاقے حیات آباد میں خود کش حملے کے نتیجے میں ایڈیشنل آئی جی ہیڈکوارٹر محمد اشرف نور شہید ہوگئے تھے۔

ایڈیشنل آئی جی اشرف نور کو گھر سےآفس جاتے ہوئے تاتارا پارک کے قریب خودکش حملےکا نشانہ بنایا گیا تھا۔

پشاور کی تاریخ میں بدترین حملہ 16 دسمبر 2014 کو ہوا تھا، جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کرکے 150 کے قریب افراد کو شہید کر دیا تھا، جن میں بڑی تعداد معصوم بچوں کی تھی۔