حالت گنج، حالت بھنگ اور اب حالت گند

پاکستان کی عوام بھی کیسی بدقسمت ہے کہ جن کو یہ بذریعہ ووٹ منتخب کر کے پارلیمان بھیجتے ہیں، وہ قانون سازی کم اور جگت بازی زیادہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ قانون سازی کرنے والے صوبائی ہوں یا وفاقی، سینیٹر ہوں یا مشیر، حُسنِ جمہوریت میں کسی بھی محفل اقتدار سے تعلق رکھنے والا کوئی ناکوئی نمائندہ اکثر و بیشتر اپنی مراثیانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے میڈیا پر دکھائی دیتا ہے اور استحصالی میڈیا مراثیوں اور جگت بازوں کو سامعین یا تماش بینوں کے سامنے خوب بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔
مثال کے طور پر نائن الیون کے بعد سے آج تک ہمارے باوردی اور بنا وردی والے پاکستان کے حالت جنگ میں ہونے کی گردان الاپ رہے ہیں اور جنگ کی حالت بھی ایسی جو کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔

حالات اب یہ ہوچکے ہیں کہ حالت جنگ کا استعارہ آئے دن سیاسی اور سماجی حالات کے مطابق نظریہ ضرورت کا استعمال کرتے ہوئے تبدیل کردیا جاتا ہے، کبھی وفاق، پنجاب اور بلوچستان میں حکومتوں کو دیکھتے ہوئے ملک کو حالت گنج میں کہا جاتا ہے اور کبھی کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے بعد استوار ہونے والی موجودہ صورت حال کے تناظر میں حالت گند میں کہا جاتا ہے۔
مسئلہ کسی بھی استعارے کا نظریہ ضرورت کے تحت معمولی سی تبدیلی کے ساتھ استعمال کا نہیں، مسئلہ ہمارے اراکین اسمبلی کی ذہنی حالت اور خبر کے لئے لالچی میڈیا کا ہے، جو کہ کسی بھی سیاستدان کی طرف سے استعمال کردہ استعارے کو بذریعہ ہیڈلائنز زبان زدعام کردیتا ہے، جس کے بعد ہر بندہ اسے مزے لے لے کر دوسروں کوسناتا ہے اور یوں ایک نیا استعارہ جنم لیتا ہے، جس کی مشہوری بنیادی استعارے سے بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔

مثال کے طور پر جب کچھ عرصہ پہلے پاکستان مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف کے مابین حالات سازگار تھے تو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے تحریک انصاف کے مستعفی ہونے والے اراکین کی قومی اسمبلی میں واپسی پر کہا گیا کہ “کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے”۔
پھر کیا تھا، پاکستان کا کوئی نیوز چینل ایسا نہیں تھا جس نے اس سنہری جملے کو ہیڈلائنز کی زینت نہ بنایا ہو، کوئی دانشور میزبان ایسا نہیں تھا جس نے اپنی کم ترین وسیع معلومات کو بذریعہ نظریہ ضرورت ان سنہری الفاظ کو موقع کی مناسبت سے دہرایا نہ ہو، حتٰی کہ گھریلو خواتین نے بھی ملازمہ کے چھٹیاں کرنے پر یہی حسین جملہ داغنا شروع کردیا۔
حالیہ دنوں میں جب کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے بعد بلدیاتی اداروں کے لئے وسائل اور اختیارات حاصل کرنے کی جنگ چل رہی ہے تو حیران کن طور پر کراچی شہر کی کچھ سڑکوں پر گٹروں کا گندا پانی کھڑا ہونے لگا ہے اور حیران کن طور پر گٹروں سے بوریاں برآمد ہوئی ہیں، جو کہ مبینہ اطلاعات کے مطابق کراچی میں بلدیاتی اداروں کے لئے مانگے جانے والے اختیارات کی جنگ کی کڑی ہوسکتی ہے۔

کچھ دن پہلے جب کراچی کے گٹروں پر وزیر اعلی سندھ کا کیری کیچر بنا کر “فکس اٹ” کا پیغام لکھا گیا تو میڈیا کی بھرپورکوریج کے باعث اس مہم کو خوب پزیرائی ملی، جس کے بعد گٹروں سے ملنے والی بوریوں کی خبروں کے بعد اسلام آباد میں بیٹھے سینیٹر مشاہد اللہ نے اس موقع کو فل ٹاس سمجھتے ہوئے سندھ حکومت کو حالت گند میں ہونے کا کہہ کر چھکا لگایا۔
آئے روز کسی نا کسی سیاستدان کی جانب سے ایسے جملے استعمال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا ملک پاکستان اصل میں حالت رنج و غم میں ہے، جو کہ ہم نے خود اپنے اوپرووٹ کا غلط استعمال کرکے مسلط کی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر اس کی وجہ ایسے سیاستدانوں کا چناؤ ہے، جن کے ایسے بیانات کو ہمارا میڈیا مرچ مصالحہ لگا کر پیش کرتا ہے، جس کی وجہ سے پورا معاشرہ چٹپٹی خبروں کا عادی بن چکا ہے، جو کہ یقیناً معاشرتی معدے کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔