ہمیں اپنے دماغ ٹھنڈے اور پاؤں گرم رکھنے کی ضرورت ہے

لکھتا جا شرماتا جا۔۔۔۔

قومی آواز ۔ ہم میں سے کون ہے۔ جس نے بچپن میں ماں، باپ ٹیچر اورقرآن پڑھانے والے مولوی سے مار اور گالیاں نہ کھائی ہوں۔۔تھپڑ کھائے ہوئے ہیں، ہتھیلیوں پر چھڑی سے مارا گیا، مرغے بنے ہوئے ہیں۔ نیچے پٹکا ہوا ہے۔ سراٹھا کر کسی بڑے سے بات کرنےکو گستاخی سمجھا گیا ہے۔ ہم من حیث القوم غیر صحت مند ماحول کے پلے لوگ ہیں۔ ہم سب کی عزت نفس کہیں نہ کہیں مجروح کی گئی ہوتی ہے۔ اسی لئے ہمارے معاشرے میں ہر کوئی ہر کسی کو گالی دیتا نظر آتا ہے۔ کسی بھی رشتے یا تعلق کو گھڑی پل میں پامال کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ جب کہ مغربی تہذیب اور مغربی ملکوں میں بچوں کو نہ اسکول میں اور نہ ہی گھر میں مارنے یا گالی دینے کا رواج ہے۔ وہاں بچے وی آئی پی کی طرح پلتے ہیں۔ سارا معاشرہ اجتماعی طور پر بچوں کی پیار کے ساتھ رکھوالی کرتا ہے۔ لوگ بچوں کےساتھ یہاں بڑا سنبھل کر پیش آتے ہیں۔ بلوغت تک ریاست بچوں کی ویلفئیر کی زمہ دار ہے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کہ بچہ اسکول نہ جائے۔ ہم مار اور گالیوں کی پلی قوم ہیں۔ ہرفرد کی کم از کم بچپن میں ہمارے معاشرے میں تذلیل ہوئی ہوتی ہے۔ ویسے تو بڑے ہو کر بھی اکثریت کی تذلیل کا عمل جاری رہتا ہے۔ چنانچہ کسی کو دوسرے کی عزت نفس کا کم ہی خیال ہوتا ہے۔ مغربی تہزیب نے بچوں کی تربیت، پرورش اور تعلیم کے حوالے سے بہت بڑا انقلاب برپا کیا ہے۔ اسی لئے مغرب کے بالغ معاشرے میں تشدد، گالی گلوچ کم پایا جاتا ہے۔ یہ لوگ زیادہ بااخلاق ہیں۔ صبر اور تحمل نظر آتا ہے۔ وہ ہر ایک کو مساوی طور پر پیش آتے ہیں۔ کوئی کسی کو کم ترنہیں سمجھتا۔۔ ہم تمام تر گھٹیا ماحول میں پلنے کے باوجود نہائت منافقت کے ساتھ مشرقی معاشرت کے گیت گاتے ہیں

ھمیں چاہیے کہ ہم حقیقت کو تسلیم کریں ۔ غیر صحت مند ماحول میں پلنے کی وجہ سے ہمارے دماغ گرم اور قدم ٹھنڈے پڑے ھوئے ہیں ھمیں چاہئے کہ انٹرنیٹ کے دورکا فائدہ اٹھائیں زمانے سے سیکھیں ۔ سامنے والے کی بات کو مذاق میں نہ اڑائیں بلکہ تسلی سے سنیں جس کے لیے ہمیں اپنے دماغ ٹھنڈے اور پاؤں گرم رکھنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ آنیوالا وقت مذید خراب ہے ۔ یہی ہماری آج کی بزم کا پیغام ہے اور یہی قومی آواز ہے ۔

ماخوذ : ارشد محمود