کانگو وائرس۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قومی آواز ۔ طب و صحت۔

کانگو وائرس۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگہی سے زندگی بچانا ممکن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
پاکستانی عوام کے لیے ہر نیادن خدشات اور نئے مسائل لے کر آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ صحت کے شعبہ میں جس طرح ہماری حکومت نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں یہی وجہ ہے کہ آئے دن نت نئے امراض کی وجہ سے کئی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈینگی اور ایبولا وائرس کے بعد اب اس کی خطرناک ترین صورت کانگو فیور کے چند مریضوں کی شناخت نے بہاول پور میں خوف و ہراس کی فضا قائم کر دی ہے۔۔۔۔۔۔۔ متعلقہ افسران نے عوام میں آگہی اور شعور اجاگر کرنے کے بجائے حسب معمول چپ سادھ رکھی ہے کیوں کہ ڈینگی کی آڑ میں جس طرح اربوں روپے اڑائے گئے اسی طرح کانگو فیور کے پھیلنے کی وجہ سے بھی اربوں کے فنڈز ملنے کی امید ہوچلی ہے۔۔۔۔۔
بہاول پور میں کانگو وائرس فائنل ایئر کی نرس نادیہ کے ذریعے پھیلنا شروع ہوا ہے جس کا خاوند بھیڑ بکریاں پالتا ہے۔۔۔۔۔۔نادیہ کو دو ہفتے قبل بہاول وکٹوریہ ہسپتال میں منتقل گیا جہاں اسے اپنڈکس سمجھ کر آپریشن کیا گیا جس کی وجہ سے یہ مرض ڈاکٹر صغیر کو منتقل ہوگیا جو پچھلے دن کراچی ہسپتال میں دم توڑ گئے۔۔۔۔۔موجودہ صرتحال کے مطابق ڈاکٹر سمیت 2 افراد اس موذی مرض کا شکار ہو کر جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ 2 مریض اس وقت کراچی کے آغا خان ہسپتال اور 8 بہاولپور کے بہاول وکٹوریہ ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس بحث سے قطع نظر کہ ہماری حکومت نے اس موذی مرض کے خاتمہ کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں اور یہ وائرس مزید کس قدر نقصان کا باعث بنے گا ہم اس مرض کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں تاکہ اپنی مدد آپ کے تحت اس مرض سے بچنے کے لیے احتیاط کی جاسکے۔۔۔۔۔۔۔
کانگو وائرس کوئی نئی بیماری نہیں بلکہ پاکستان میں سال 2002 ء میں کانگو وائرس کی وجہ سے سات افراد لقمہ اجل بنے تھے اور اس وائرس کی2002 میں جس طرح سے تشہیر عام کی گئی تھی اس نے عام شہریوں سمیت ڈاکٹروں اور نرسوں میں بھی شدید خوف وہراس پھیلا دیاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت اس وبائی مرض سے کم ازکم7افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں ایک نوجوان لیڈی ڈاکٹر اور4کمسن بچے بھی شامل تھے۔۔۔۔۔محکمہ صحت کے مطابق پچھلے سال بلوچستان میں کانگو وائرس کے 56 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں 12 خواتین بھی شامل تھیں۔۔۔۔۔۔ اس خطرناک وائرس سے 13 مریضوں نے دم توڑ دیا۔۔۔۔۔ یہ دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والی وبائی بیماری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کانگو وائرس کیا ہے؟؟؟
سب سے پہلے تو ہمیں اس بیماری کے متعلق علم ہونا چاہیے تاکہ وجوہات کو جانتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں اور بچنے کی ممکنہ کوشش کی جائے۔۔۔۔۔۔۔ کانگو وائرس کا سائنسی نام ’کریمین ہیمریجک کانگو فیور‘ ہے جس کی 4 اقسام ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر کسی کو کانگو وائرس لگ جائے تو اس سے انفیکشن کے بعد جسم سے خون نکلنا شروع ہوجاتا ہے۔ خون بہنے کے سبب ہی مریض کی موت واقع ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وائرس زیادہ تر افریقی اور جنوبی امریکہ ‘مشرقی یورپ‘ایشاء اورمشرقی وسطی میں پایا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے کانگو سے متاثرہ مریض کا پتہ انہی علاقوں سے چلا اسی وجہ سے اس بیماری کو افریقی ممالک کی بیماری کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ سب سے پہلے1944کو کریمیا میں سامنے آئے اسی وجہ سے اس کا نام کریمین ہیمرج رکھا گیا-۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھیلاؤ
ماہرین صحت اور معالجین کا کہنا ہے کہ کانگو وائرس کے ٹکسTick ( ایک قسم کا کیڑا)مختلف جانوروں مثلاًبھیڑ، بکریوں، بکرے، گائے، بھینسوں اور اونٹ کی جلد پر پائے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹکس جانور کی کھال سے چپک کر اس کا خون چوستا رہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ کیڑا ہی اس بیماری کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کیڑا اگر انسان کو کاٹ لے یا پسو سے متاثرہ جانور ذبح کرتے ہوئے بے احتیاطی کی وجہ سے قصائی کے ہاتھ پر کٹ لگ جائے تو یہ وائرس انسانی خون میں شامل ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یوں کانگو وائرس جانور سے انسانوں اور ایک انسان سے دوسرے جانور میں منتقل ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہی وجہ ہے کہ اسے چھوت کا مرض بھی خیال کیا جاتا ہے اور یہ کینسر سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کانگو میں مبتلا ہونے والا مریض ایک ہفتہ کے اندر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے-۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کانگو وائرس کی اقسام
اس وائرس کی چار اقسام ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈینگی وائرس(Dengue)
ایبولا وائرس(Ebola)
لیسا وائرس(LASSA)
ریفٹی ویلی وائرسRiftVally))
مریض کی علامات
کانگو وائرس کا مریض تیز بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے سردرد، متلی، قے، بھوک میں کمی، نقاہت، کمزوری اور غنودگی، منہ میں چھالے، اورآنکھوں میں سوجن ہوجاتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تیز بخار سے جسم میں وائٹ سیلس کی تعداد انتہائی کم ہوجاتی ہے جس سے خون جمنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ متاثرہ مریض کے جسم سے خون نکلنے لگتا ہے اورکچھ ہی عرصے میں اس کے پھیپھڑے تک متاثر ہوجاتے ہیں، جبکہ جگر اور گردے بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور یوں مریض موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیبارٹری تیسٹ
کانگو کے ٹیسٹ نہایت اعلٰی کوالٹی بائیوسیفٹی لیب میں ہی ممکن ہو سکتے ہیں جبکہ بہاول پور میں ایسی لیبز کا تاحال کوئی وجود نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس مرض کے لیے تجویز کردہ مختلف ٹیسٹ جو میں نے مختلف ویب سائٹس پر دیکھے درج ذیل ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1-147ELISA148 or 147EIA148 methods
2-antigen detection;
3- serum neutralization;
4-RT-PCR
5-virus isolation by cell
culture.
کانگو سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر:
کانگو سے بچاؤ اور اس پر قابو پانا تھوڑ ا مشکل ہے کیوں کہ جانوروں میں اس کی علامات بظاہر نظر نہیں آتیں تاہم ان میں چیچڑیوں کو ختم کرنے کے لیے کیمیائی دوا کا اسپرے کیا جائے-
کانگو سے متاثرہ مریض سے ہاتھ نہ ملائیں۔
مریض کی دیکھ بھال کرتے وقت دستانے پہنیں۔
مریض کی عیادت کے بعد ہاتھ اچھی طرح دھوئیں۔
لمبی آستینوں والی قمیض پہنیں۔
جانورمنڈی میں بچوں کوتفریحی کرانے کی غرض سے بھی نہ لے جایا جائے
یشی منڈی میں جانوروں کے فضلے کے اٹھنے والا تعفن بھی اس مرض میں مبتلا کر سکتا ہے
کپڑوں اور جلد پر چیچڑیوں سے بچاؤ کا لوشن لگائیں۔
جانوروں کی خریداری کیلیے فل آستیں والے کپٹرے پہن کر جائیں کیونکہ بیمار جانوروں کی کھال اورمنہ سے مختلف اقسام کے حشرت الارض چپکے ہوئے ہوتے ہیں جو انسان کوکاٹنے سے مختلف امراض میں مبتلا کرسکتے ہیں۔
جانوروں کی نقل وحمل کرتے وقت دستانے اور دیگر حفاظتی لباس پہنیں، خصوصاً مذبح خانوں ،قصائی اور گھر میں ذبیحہ کرنے والے افراد لازمی احتیاطی تدابیراختیار کریں۔
مذبح میں جانوروں کے طبی معائنہ کیلئے ماہر ڈاکٹروں کی ٹیم کا ہونا بہت ضروری ہے جو ایسے جانوروں کی نشاندہی کر سکیں-
مذبح خانوں کی صفائی کاخاص خیال رکھیں۔