قومی آواز ۔ میں نے موبائل فون کی اسکرین پر انگلی پھیری‘ اسکرین جاگ گئی‘چار بجے تھے‘ لینڈنگ میں ابھی15 منٹ باقی تھے‘ میں نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا‘ ہم پہاڑوں کے اوپر سے گزر رہے تھے‘ مارگلہ کی یہ پہاڑیاں ہمیشہ میرا دل کھینچ لیتی تھیں‘آپ کو تاحد نظر سبزے کا قالین بچھا دکھائی دیتا ہے‘ یہ قالین ذہن کے کینوس پر نقش ہوتا چلا جاتا ہے‘ سبزے کا قالین آج بھی بچھا تھا‘ نیچے کا منظر آج بھی آنکھوں میں جذب ہو رہا تھا‘ میں نے کھڑکی سے نظر ہٹائی اور دائیں بائیں دیکھنے لگا‘جہاز مسافروں سے بھرا تھا‘ میری دائیں طرف ایک گورا سیاح بیٹھا تھا‘ وہ سیٹ کے ساتھ ٹیک لگا کر اونگھ رہا تھا‘ سفر کی تھکاوٹ گرد کی طرح اس کے چہرے کی جھریوں میں اٹکی تھی۔
اگلی سیٹ پر کوئی چترالی مسافر بیٹھا تھا‘وہ خاصا بدتمیز واقع ہوا تھا‘ وہ چترال ائیر پورٹ سے لوگوں سے الجھتا چلا آ رہا تھا‘ اسے پہلے اچھی سیٹ نہ ملنے کی شکایت تھی‘ پھر وہ عملے کے رویئے پر شاکی تھا‘ پھر وہ موبائل فون پر کسی سے اونچی آواز میں لڑتا رہا اور آخر میں اسے جہاز میں کوکا کولا نہ ملنے پر اعتراض تھا‘ وہ سرگوشی بھی انتہائی بلند آواز میں کرتا تھا‘ اس سے آگے کوئی تاجربیٹھا تھا‘ وہ جہاز اڑنے تک ٹیلی فون پر سودا کرتا رہا‘ وہ خاصا پریشان بھی دکھائی دیتا تھا‘ میرے ساتھ مدرسے کا ایک طالب علم بیٹھا تھا‘ وہ مسلسل منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ رہا تھا‘ وہ شاید تسبیح کر رہا تھا۔
میں نے سوچا‘ مجھے اگر چند لمحوں کے لیے دوسروں کے دماغ میں جھانکنے کی صلاحیت مل جائے اور میں اپنے ساتھی مسافروں کا دماغ پڑھ سکوں تو یہ کیسا تجربہ ہو گا؟ میں یہ سوچ کر مسکرا اٹھا‘ میں نے اندازہ لگایا‘ میرے اردگرد بیٹھے لوگ صرف لوگ نہیں ہیں یہ الف لیلیٰ جیسی کہانیاں ہیں‘ یہ لوگ بیک وقت لالچ‘ حرص‘ خوف‘ انتقام‘ محبت‘ سخاوت‘ مروت اور معافی کا مجموعہ ہیں‘ یہ زندگی میں آگے بھی نکلنا چاہتے ہوں گے‘ یہ تاسف کا شکار بھی ہوتے ہوں گے‘ یہ اپنی زندگی کی حماقتوں پر دل گرفتہ‘ شرمندہ اور اداس بھی ہوتے ہوں گے‘ یہ اپنی نالائقیوں‘ نااہلیوں اور کوتاہیوں کا ماتم بھی کرتے ہوں گے‘ یہ فرعون کے باس بھی ہوں گے۔
یہ جب اپنے دفتروں‘ کارخانوں‘ دکانوں اور گھروں میں داخل ہوتے ہوں گے تو لوگ ان کی چاپ سن کر کانپ اٹھتے ہوں گے‘ یہ لوگ کنجوس بھی ہوں گے‘ یہ کسی کو پانی کا گلاس تک نہیں پلاتے ہوں گے‘ یہ لالچی بھی ہوں گے‘ یہ لوگوں کا مال بھی ہڑپ کر گئے ہوں گے‘ یہ لوگوں سے وعدہ خلافی بھی کرتے رہے ہوں گے‘ یہ رشوت دیتے اور لیتے بھی ہوں گے‘ یہ وعدہ خلافی بھی کرتے ہوں گے‘ یہ جھوٹ بھی بولتے ہوں گے اور یہ غیبت‘ منافقت اور ریاکاری میں بھی لتھڑے ہوں گے‘ ان میں سے کون کیا کیا منصوبہ بنارہا ہو گا‘ کس نے کس کو نقصان پہنچانا ہو گا‘ کس نے پچاس سال کے لیے پکا مکان بنانا ہو گا۔
کس نے کون سی قیمتی گاڑی خریدنی ہو گی‘ کون کس ملک کی سیاحت پر جائے گا اور کون کس بھائی‘ بہن اور دوست کے مال پر قبضے کی پلاننگ کر رہا ہو گا‘یہ تمام کہانیاں حیران کن ہوں گی‘ میں نے سوچا ان میں کتنے ہی لوگ اچھے ہوں گے‘یہ نماز اور روزے کے پابند‘ باحیاء‘ بااخلاق اور بامروت ہوں گے‘ دوسروں کا احترام کرنے والے‘ سچ بولنے‘ عزت کرنے اور حق دار کا حق دینے والے ہوں گے‘ ان میں کتنے ہی لوگ ہوں گے جنھوں نے زندگی میں کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔
جو گناہ کے بارے میں سوچتے تک نہیں ہوں گے اور لوگ جن کی ایمانداری کی قسمیں کھاتے ہوں گے‘ میں یہ سوچتا جاتا تھا اور مسکراتا جاتا تھا‘ ہم انسان بھی کیا چیز ہیں‘ ہم ہمیشہ ہزار سال لمبی پلاننگ کرتے ہیں‘ ہماری نفرتیں‘ محبتیں‘ عداوتیں‘ دشمنیاں‘ دوستیاں اور اختلافات سیکڑوں سال طویل ہوتے ہیں‘ ہم جب لالچ کی فصل بھی کاشت کرتے ہیں تو وہ بھی میلوں لمبی ہوتی ہے لیکن ہمیں سیکنڈ کا پتہ نہیں ہوتا‘ ہم بھی کتنے عجیب ہیں۔
میں نے اپنی توجہ مسافروں سے ہٹائی اور دوبارہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا‘ پھر نہ جانے کیا ہوا‘ ہمارا جہاز یک دم بائیں جانب جھکا اور جھکتا ہی چلا گیا‘ ایمرجنسی لائیٹس آن ہو گئیں ’’سیٹ بیلٹس باندھ لیں‘‘ کا سائن روشن ہو گیا‘ آکسیجن کے ماسک نیچے گر گئے اور جہاز کے اندر سائرن بجنے لگے‘ میرا دل پسلیوں پر دستک دینے لگا‘ میں نے سیٹ بیلٹ باندھی اور دائیں بائیں دیکھنے لگا‘ تمام مسافروں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں‘ لوگ اونچی اونچی آواز میں اللہ اکبر‘ اللہ اکبر‘ یا اللہ توبہ‘ یا اللہ توبہ کا ورد کر رہے تھے‘ جہاز نے سنبھلنے کی کوشش کی‘ سنبھلا لیکن پھر چند سیکنڈ میں کٹی پتنگ کی طرح نیچے گرنے لگا‘جہاز چند سیکنڈ میں ہزاروں میٹر نیچے آگیا۔
ہم نے اچانک پائلٹ کی آواز سنی‘ میں کوشش کر رہا ہوں‘ میں کوشش کر رہا ہوں‘ مسافروں نے جوں ہی پائلٹ کے منہ سے یہ سنا‘ جہاز کے اندر ماتم برپا ہو گیا‘ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی‘ ماؤں نے بچوں کو سینوں سے بھینچ لیا‘ بیویوں نے خاوندوں کے بازو جکڑ لیے اور مردوں نے دونوں ہاتھوں سے اگلی سیٹیں تھام لیں‘ ہم سب اللہ اکبر‘ اللہ اکبر‘ یا اللہ توبہ یا اللہ توبہ اور کلمہ طیبہ کا ورد کر رہے تھے‘ کسی شخص نے اونچی آواز میں قرآن مجید کی تلاوت بھی شروع کر دی‘ جہاز تیزی سے نیچے جا رہا تھا اور پائلٹ اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا‘ جہاز رکتا تھا‘ سیدھا ہوتا تھا لیکن پھر نیچے کی طرف دوڑ پڑتا تھا‘ ہم ’’ڈائریکشن لیس‘‘ بھی ہو چکے تھے۔
ہمارا جہاز کبھی دائیں جاتا تھا‘ کبھی بائیں اور کبھی آگے اور کبھی پیچھے‘ پائلٹ شاید لینڈنگ کے لیے کوئی جگہ تلاش کر رہا تھا‘ جہاز نے ایک اور جھٹکا کھایا اور نوے کے زاویئے پر جھک گیا‘ سامان کے بالائی خانے کھل گئے‘ مسافروں کے بریف کیس‘ سوٹ کیس اور تھیلے نکلے‘ ہماے سروں پر گرے اور پورے جہاز میں بکھر گئے‘ سوٹ کیس پہاڑ سے گرتے پتھروں کی طرح فرش پر گرتے تھے اور پھر تیزی سے جہاز کی دُم کی طرف چلے جاتے تھے‘ مسافروں کی نشستیں اوپر اٹھ رہی تھیں‘ یوں محسوس ہو تا تھا سیٹیں بھی فرش سے اکھڑ کر دُم میں جا گریں گی۔
کاک پٹ کا دروازہ کھل چکا تھا اور پائلٹس کی ذاتی اشیاء اور جہاز کے پرزے بھی اکھڑ کر فضا میں تیر رہے تھے‘ پھر اچانک مسافروں کی آہیں اور سسکیاں بند ہو گئیں‘ میں نے غور کیا‘ پتہ چلا تمام لوگ بے ہوش ہو چکے ہیں‘ انسان شاید موت سے قبل بے ہوش ہو جاتے ہیں‘ جہاز ایک بار پھر اوپر اٹھا‘ دو سیکنڈ کے لیے سیدھا ہوا اور پھر نیچے گرنے لگا‘ جہاز کی دُم پر پڑا سارا سامان اب کاک پٹ کی طرف دوڑ رہا تھا۔
میں نے اپنی آنکھوں سے بریف کیس‘ سوٹ کیس اور سامان کے تھیلے پائلٹس کی سیٹوں پر گرتے دیکھے‘ پائلٹ تھیلوں میں دب گیا‘ اس نے جہاز کو آخری مرتبہ سیدھا کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہو گیا‘ جہاز تیزی سے پہاڑ کی طرف جانے لگا‘ میری سیٹ اکھڑ چکی تھی‘ میں نے اپنے پاؤں اگلی سیٹ کے راڈ میں پھنسادیئے اور میں نے کرسی کی پشت کو دونوں ہاتھوں سے جکڑ لیا‘ میرے منہ سے اللہ اکبر اور لاالٰہ الااللہ نکل رہا تھا ‘ میں بے بسی سے دائیں بائیں بھی دیکھ رہا تھا‘ ہمارا جہاز تیزی سے پہاڑ کی طرف گیا‘ دھماکا ہوا اور جہاز چوٹی سے ٹکرا گیا‘ جہاز کی ونڈ اسکرین‘ انجن اور پینل ٹوٹا اور پرزے مسافروں کے وجود کے اندرسے گزرتے چلے گئے۔
سیٹیں بھی اپنی جگہ سے نکلیں‘ تلواریں اور نیزے بنیں اور مسافروں کے آر پار ہو گئیں‘ میرا جسم ناف کے نیچے سے کٹ کر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا‘ نیچے کا حصہ فرش کے راڈ میں پھنسا رہ گیا جب کہ اوپر کا حصہ جہاز کی باڈی کے ساتھ پہاڑ کی ڈھلوان پر لڑھکنے لگا‘ میرے بازو‘ میرا سر اور میری آنتیں ایک ایک کر کے میرے وجود سے کٹ رہی تھیں‘ صرف آنکھیں محفوظ اور کھلی تھیں‘ مجھے اس وقت انداز ہوا موت سے ذرا پہلے درد انسان کا ساتھ چھوڑدیتا ہے‘ مجھے اس وقت معلوم ہوا درد زندگی کی علامت ہے‘ آپ کو جب تک درد محسوس ہو تا ہے آپ اس وقت تک زندہ ہیں۔
آپ جوں ہی موت کے قریب پہنچتے ہیں‘درد آپ کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے‘ آپ کا وجود تکلیف سے آزاد ہو جاتا ہے‘ تکلیف ہماری زندگی کا آخری بوجھ ہوتا ہے‘ ہم موت سے پہلے اس سے آزاد ہوتے ہیں‘ میں نے اس وقت محسوس کیا یہ میری زندگی کا واحد لمحہ ہے میں جس میں اپنے آپ اور اپنے لواحقین کو مکمل طور پر بھول چکا ہوں‘ میں اپنا نام‘ حسب نسب‘ زندگی اور رشتے سب کچھ بھول چکا تھا‘ مجھے اگر کوئی چیز یاد تھی تو وہ اللہ اکبر‘ اللہ اکبر اور یا اللہ میری توبہ تھی۔
میں یہ بولتا جا رہا تھا اور جہاز کی باڈی کے ساتھ تیزی سے نیچے کی طرف لڑھکتا چلا جا رہا تھا‘ میں اچانک رک گیا‘ میں شاید کسی درخت میں پھنس گیا تھا‘ میں نے لمبا سانس کھینچا لیکن میں سانس مکمل نہ کر سکا اوپر سے پٹرول اور آگ کا ریلا آیا اور میں اس ریلے میں بہہ گیا‘ میں دھواں بن کر ہوا میں جذب ہو گیا‘ ہوا اڑی اور میں کون تھا‘ میں کیوں دنیا میں آیا تھا اور میں دنیا میں کیا کرنا چاہتا تھا یہ سارے سوال میرے ساتھ حویلیاں کی وادی میں بکھر گئے‘ میں ہوا کی قبر میں دفن ہو گیا۔
ماخوذ ۔جاوید چوہدری